- تعارف و خدمات بانی جامع مسجد
- ہوم
تعارف و خدمات بانی جامع مسجد

تعارف و خدمات بانی جامع مسجد نور الاسلام و جامعه سعید یہ حضرت مولانا شیر محمد
اللہ تعالیٰ کے ہاں کسی بھی نیک عمل کی قبولیت کے لیے اخلاص نیت اور للہیت سب سے پہلی شرط ہے اس کی بے شمار مثالیں قرآن وحدیث واحوال صحابہ و تابعین اور ہمارے حضرات اکابرین رحمہم اللہ تعالیٰ کی زندگیوں میں موجود ہیں در حقیقت یا درکھنے کی بات یہ ہے کہ دین کے کسی کام میں جتنا اخلاص زیادہ ہو گا اتنا ہی اجر زیادہ ہو گا اور اس عمل کو اللہ پاک قبولیت و دوام بھی عطا کرینگے۔ یہی وجہ
ہے کہ عمل چاہے کتناہی چھوٹا کیوں نہ ہو اخلاص کی وجہ سے ایک چھوٹا عمل بھی اللہ رب العزت کی نظر میں بڑا بن جایا کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے کچھ ایسا ہی اخلاص حضرت مولانا شیر محمد کو دیا تھا۔ یہ مسجد حضرت ولی کامل حضرت مولانا شیر محمد صاحب نور اللہ مرقدہ کے تو گل واخلاص کی ایک کھلی تصویر ہے جب ہر طرف سے مخالفتوں کا سامنا تھا مگر آپ حالات کی صعوبتوں اور دشواریوں کا سامنا کرتے اور رات کو مصلے پر اللہ کے سامنے مناجات کرتے اور دعوات سحری میں اللہ جل شانہ سے مدد طلب کرتے اور انّما اشکو بنى وحزنی الی اللہ کی عملی تصویر و تعبیر ہوتے۔ 1963 سے قبل اس علاقے کو “ہوا بندر” (پشتو میں ) اور اردو میں یہ علاقہ اک اک سکول کے نام سے مشہور تھا اور اس مسجد کو لوگ “اِک اِک اسکول کی مسجد ” کے نام سے جانتے تھے اگر چہ اس وقت اس کا اصل نام “نور الاسلام “رکھا جا چکا تھا۔ ارد گرد کی سب جگہ ویران ہوتی تھی تھوڑی بہت آبادی تھی۔ اور اس وقت بارش کی وجہ سے مسجد کی حالت یہ ہوتی تھی کہ مسجد کے باہر اتنا پانی نہیں ہو تا تھا جتنا مسجد کے اندر جمع ہو جایا کرتا تھا اور مسجد کی چھت کثرت سے ٹپکا کرتی تھی۔ اور پھر ایک وقت ایسا آیا کہ مسجد پر صبر آزما حالات بھی آئے لیکن اس وقت آپ نے مخلص ساتھیوں کے ہمراہ مسجد کو آبادر کھا اللہ تعالیٰ کے فضل واحسان اور آپ کے اخلاص کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے فضل فرمایا اور الحمد للہ وقت گزرتا گیا مسجد آپ کی امامت و قیادت میں ترقی و توسیع کی منازل طے کرتی گئی اور آج جامع مسجد نور الاسلام کا شمار شہر کی ایک بڑی اہم اور خوبصورت مساجد میں ہوتا ہے آج جمعہ اور اہم مواقع پر مسجد میں جگہ کم پڑ جاتی ہے تو باہر سڑک پر لوگوں ایک بہت بڑی تعد اد نماز جمعہ ادا کرتی ہے۔
یہ علاقہ آج زمزمہ کے نام سے مشہور و معروف ہے 83-1982ء میں یہ علاقہ اس نام کے ساتھ وجود میں آیا۔
ایک وقت وہ تھا جب عشاء اور فجر کی نماز میں خوف کی وجہ سے لوگ مسجد نور الاسلام میں نماز کے لیے نہیں آتے تھے اس وقت حضرت
مولانا شیر محمد رحمتہ اللہ علیہ ہی مسجد کو آباد رکھتے حتی کہ مسجد کی توسیع کے موقع پر آپ نے اپنا مکان بھی مسجد میں شامل کروادیا۔۔ حضرت مدیر جامعہ فرماتے ہیں کہ ہم نے حضرت والد صاحب نوراللہ مرقدہ کو ہمیشہ صبر واستقامت کے اعلی مر تبہ پر فائز دیکھا جیسے بھی حالات ہوں انہیں اپنے اسلاف کے نقش قدم پر چلتے ہوئے پایا اپنے رب سے تعلق جوڑتے اور اسی کو کامیابی سمجھتے ۔ اپنے اخلاق کریمانہ سے دشمن کو بھی دوست بنالیتے اور مخالف آپ کے ہمنوا بن جاتے اور خود آکر معافی مانگتے۔ مدرسے کے مالی معاملات میں بھی اللہ پر کامل یقین کرتے اور صبر کو اختیار کرتے مشکل سے مشکل حالت میں بھی جب جامعہ پر مالی مشکلات آتی تو بھی اپنے رب سے ہی تعلق قائم رکھتے اور یہی وجہ ہیکہ بار ہا جب مطبخ میں کچھ بھی نہ پکتا تو اللہ سے رجوع فرماتے اور پھر اللہ کی طرف سے انعامات کا بھی ظہور ہو تا اور الحمدللہ اللہ رب
العزت کی نصرت اور تائید غیبی نے بار ہا جامعہ پر اپنا فضل و کرم فرمایا اور آئندہ بھی یقین ہے کہ اللہ تعالیٰ کا فضل جاری رہے گا۔ حضرت مولانا شیر محمد نے اپنی ساری زندگی اس مسجد و مدرسہ کی تعمیر و ترقی اور فلاح کے لئے وقف کیے رکھی ، آپ کا معمول تھا کہ روزانہ تہجد کی نماز کے لئے گھر سے مسجد تشریف لاتے اور طلباء کو بھی اٹھاتے آپ اکیلے ہی اپنے فاصلے پر موجود گھر سے اکیلے مسجد تشریف لاتے اور کسی قسم کا خوف نہیں ہو تا تھا حالانکہ اہل محلہ نے بارہا منع کیا کہ کوئی نقصان نہ پہنچادے لیکن آپ کا مسجد میں تہجد کے لئے عمر بھر آنا ترک نہیں ہوا اور اس پر مداومت سے عمل فرماتے رہے۔
فجر کے بعد صبح دس بجے تک مدرسہ میں رہتے اور اساتذہ و طلباء کے معاملات دیکھتے اور ان کی بھر پور دل جوئی اور خدمت کرتے آپ کی باتیں سادہ لیکن نصیحت سے پر ہوتی اور ان میں بے پناہ حقیقت موجود ہوتی۔ آپ نے ہمیشہ تکبیر اولیٰ کے ساتھ نماز کا اہتمام فرمایا پیرانہ سالی میں بھی کبھی رمضان المبارک میں اعتکاف ترک نہیں فرمایا اور یومیہ معمولات میں دس پارے روازانہ تلاوت فرماتے ۔ 5000 مرتبہ درود شریف اور دلائل الخیرات پڑھنے کا عمر بھر معمول رہا۔ آپ کے پاس بیٹھنے والوں کو ایک خاص روحانیت محسوس ہوتی اور بے اختیار لوگ اللہ کا ذکر کرتے ۔ اساتذہ کرام کو طلباء کا خصوصی خیال رکھنے کا فرماتے اور استاد شاگرد کے رشتے کی اہمیت بتاتے ہوتے فرماتے کہ مدرسہ کی پہلی کڑی آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہے یہ کم ہیں اور مسجد نبوی ہیں اور اس کے بعد تمام مدارس فیضان نبوت سے ہی مہک رہے ہیں اور ان شاء اللہ تا قیامت قائم رہینگے ۔ آخری لمحات: 3 شعبان 1430 ہجری 26 جولائی 2009 بروز اتوار کو آپ نے غسل فرمایا اور تمام معمولات انجام دیئے لیکن کچھ دیر بعد سینے
میں تکلیف محسوس کی ڈاکٹر کو بلوایا لیکن تکلیف بڑھنے کی وجہ سے اسپتال لے جانے کے لئے راستے میں ہی تھے کہ خالق حقیقی سے جاملے۔ اناللہ وانا الیہ راجعون ، اور وہاں چلے گئے جہاں سب کو ایک دن جانا ہے۔ اللہ تعالیٰ آپ کی تمام دینی خدمات کو قبول فرمائے اور اس ادارے کو ان کے لئے صدقہ جاریہ بنائے۔
ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پر روتی ہے بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا
ہمارا ساتھ دیں، ہمیں آپ کی مدد کی ضرورت ہے۔
اللہ آپ کو سلامت رکھے! شکریہ جو لوگ اپنا مال رات اور دن، پوشیدہ اور علانیہ خرچ کرتے ہیں، ان کا اجر ان کے رب کے پاس ہے۔